فکرِ آخرت پر فکر انگیز تحریر
قاری لیاقت علی
قاری لیاقت علی
محترم قارئین! یہ تو یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ایمان کو اصل اور یقینی ایک فکر ہے جو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں کامیابی کیسے حاصل کرنی ہے اور بحیثیت مسلمان یہ فکر ہونی بھی چاہیے کیونکہ دنیاوی معاملہ جات کی تمام فکریں عارضی ہیں اور اس فکر سے انتہائی کم درجہ رکھتی ہیں، قرآن پاک کی تعلیمات ہو، رسول اللہﷺ کے اقوال و افعال مبارکہ ہو، صحابہ کرامؓ کی سیرت کے شاندار نمونے ہوں یا اولیاءعلیھمؒ کی زندگیاں ہوں۔ سب سے فکر آخرت روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر ہے ہم کسی سے بھی اخلاص سے اور صدق دل سے منسلک ہو کر اپنی زندگیوں کا عظیم مقصود فکر آخرت حاصل کر سکتے ہیں، فکر آخرت والا انسان ہر وقت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کا متلاشی اور جویان ہوتا ہے۔ نماز کے وقت نماز کی پابندی اور پورے انہماک اور خشوع و خضوع سے ادا کرنےکی کوشش کرتا ہے اگر زکوٰة واجب ہے تو مستحین تک پہنچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے حتیٰ کہ اپنے حق سے بری ہو جائے، روزے آجائیں تو ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، حقوق العباد کا بھرپور خیال کرتا ہے کہ کل قیامت میں کہیں کسی کے حق کی خاطر پھنس نہ جاﺅں۔ الغرض ہر اچھے کام کو ادا کرنے اور برے کام سے بچنے کےساتھ ساتھ خوف خدا پھر بھی اپنے اوپر طاری رکھتا ہے روتا اور گڑ گڑاتا رہتا ہے، انہی امور کو اپنا کر انسان فکر و آخرت کا پیکر بن جاتا ہے جس سے دنیاوی زندگی کامیاب اور آخرت میں بھی سُرخروئی ملتی ہے۔ حضرت عمرؓ، خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ، کے منتخب امیر الومنین خلیفہ ثانی نے فرمایا! قیامت میں اعمال ناموں کے تلنے سے پہلے اپنے نفس کے اعمال کا وزن کر لو اور حساب ہونے سے اپہلے اپنے نفس کا محاسبہ کر لو اور بڑی پیشی کیلئے تیار ہوتے رہو اور وہ قیامت کا دن ہوگا جس دن تمہیں پیش ہونا ہے کہ کوئی چھپنے والا چھپ نہیں سکے گا، چونکہ انسان دنیا مین ایک مسافر کی طرح ہے تو آج کل تو یہ سبق ہم کسی بھی مسافر سے لے سکتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر مجوزہ سامان سے زیادہ سامان نکلنے کی صورت میں پریشانی کس قدر دامن گیر ہوتی ہے اور اچانک ایسی صورتحال پا کر کیا کیفیت ہوتی ہے؟ یہ تو دنیا کا عارضی سفر ہے اور ہوتا بھی کئی بار ہے کچھ نہ کچھ حالات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے، آنے جانے والوں سے پوچھا بھی جا سکتا ہے لیکن آخرت کا میدان ایک بار ہی لگے گا کوئی مہلت نہیں، بس اس کے متعلق قرآن و حدیث کی غائب کی خبریں ہی پڑھ کر یقین کرنا ہوگا اور تیاری کرنی ہوگی۔ تو اس تیاری کیلئے امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کا مذکورہ فرمان ہمارے لئے کافی ہے، حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے بندو میں نے خود اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے اور تمہارے لئے بھی حرام کیا ہے، لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم مت کرو، میرے بندو تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے کہ جن کو میں نے ہدایت دی۔ سو تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دونگا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے ان کے کہ جن کو میں لباس پہنا دوں، تم مجھ سے لبااس مانگو میں تمہیں لباس عطاءکرونگا۔ میرے بندو! تم شب و روز خطاﺅں میں لگے ہوئے ہو اور میں تمہارے گناہوں کی مغفرت کرتا ہوں تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دونگا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل پر ہو جائیں یعنی سبھی اس جیسے ہو جائیں تو اس سے میرے ملک میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوگا، میرے بندو اگر تمہارے اول و آخر جن اور انسان سب ایک بد ترین شخص کے قلب پر ہو جائیں یعنی اس جیسے ہو جائیں تو اس سے میرے ملک میں کچھ بھی کمی نہیں آئےگی۔ میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر جن اور انسان سب مل کر ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور ہر ایک اپنی اپنی حاجتوں کا مجھ سے سوال کرے اور مین سبھی کی حاجتوں کو پورا کر دو تو میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہ ہوگی جتنی کہ سمندر میں ایک مرتبہ ایک سوئی ڈبو کر نکال لینے سے واقع ہوتی ہے۔ میرے بندو! یہ سب تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے بحفاظت رکھے جا رہا ہوں اور قیامت کے دن یہی تمہیں ٹھیک ٹھیک لوٹا دیئے جائینگے۔ اچھا انجام پانے والا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءکرے اور ناکام شخص اپنے ہی نفس کو ملامت کرے اس طویل حدیث مبارکہ قدسیہ میں اللہ تعالیٰ کی عطاﺅں اور قدرتوں کا بیان ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو سوچنا اور فکر کرنا ہوگاکہ وہ خالق و مالق حقیقی کو چھوڑ کر کہیں اور طرف تو نہیں جا رہا، وہا پنے اوپر شرمندگی اور ملامت کو مسلط تو نہیں کر رہا؟ وہ اپنی اس فانی دنیا میں فانی خواہشات نفسانیہ کے حصول کیلئے اپنی ہمیشہ کی اور باقی زندگی کے معاملہ جات کو آگ سے جلا تو نہیں رہا، اگر ایسا ہے تو میرا بھائی و بہن غلطی پر ہے۔ اللہ کی طرف سے بخشش توبہ کا دروازہ کھلا ہے، آنسوﺅں کا پانی پاس ہے، یہ ان خطاﺅں کو دھو سکتا ہے، لہٰذا جیسے بھی ہو آخرت کی کامیابی کا سامان تیار کرنا ہوگا،ان سب کے باوجود اس کی رحمت کا دامن نہیں چھوڑنا، اس سے مایوس نہیں ہونا اور اپنی عبادت پر متکبر نہیں ہونا، حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی ¿ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا! ”کہ بیماروں کی تیمار داری کیا کرو اور جنازوں کےساتھ جایا کرو اس سے آخرت کا دھیان پیدا ہوت اہے، کسی دانا کا قول ہے کہ اس نے بعض لوگوں کو جنازہ کےساتھ جاتے دیکھا کہ وہ میت پر بڑا ترس کھا رہے تھے اور مہربانی کا اظہار کر رہے تھے، یہ دیکھ کر فرمایا کہت م لوگ اگر اپنے اوپر ترس کھاﺅ تو بہتر ہوگا کہ یہ شخص تو فوت ہو گیا ہے یہ تو تین آفتوں سے نجات پا چکا ہے، ملک الموت کامنظر، موت کا تلخ زائقہ، خاتمہ کا خوف۔ پھر فرمانے لگے کہ حضرت ابو درداء نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جو ایک جنازہ کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ یہ کون ہے؟ تو حضرت ابو درداءنے جواب دیا کہ تو ہے (یعنی تیرا جنازہ ہے) اگر بُرا ماننا ہے تو میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنا دیتا ہوں۔ ترجمہ: یعنی بے شک تجھے بھی موت آنے والی ہے اور یہ لوگ بھی بالیقین مرنے والے ہیں، حضرت امام حسن بصریؒ سے منقول ہے کہ موت کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہے اور پھر بھی کھانا سوجھتا ہے اور انہی کا یہ مقولہ بھی ہے کہ ان لوگوں پر سخت تعجب اور حیرت ہے جنہیں توشہ تیار کرنے کا حکم مل چکا ہے، کوچ کا نقارہ بج چکا ہے اور قافلے کا اگلا حصہ چل بھی چکا ہے اور یہ ابھی بیٹھے کھیل ہی رہے ہیں اور غفلت میں پڑے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن بصریؒ جب کسی میت کو دیکھتے تو حالت ایسے ہو جاتی تھی کہ وہ ابھی اپنی ماں کو دفن کر کے آ رہے ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جو آنکھ آنسوﺅں سے بھر آئے تو اللہ تعالیٰ اس کا جلانا آگ پر حرام کر دیتا ہے اور اگر وہ آنسو اس کے چہرے پر پڑ جائیں تو اس چہرہ پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت کے آثار ہوں گے اور ہر نیکی کا ثواب مقرر ہے سوائے آنسو بہانے کے کہ وہ آگ کے سمندروں کو ختم کرتا ہے ۔ اگر کسی جماعت کا ایک فرد بھی اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت پوری جماعت پر رحمت فرماتا ہے۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے آنسو بہانا مجھے اپنے وزن کے برابر سونا صدقہ کرنے سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے حتیٰ کہ اس کے آنسو زمین پر گرتے ہیں اس کو آگ نہیں چھوئے گی حتیٰ کہ زمین پر بسنے والا قطرہ آسمان کی طرف واپس ہو جائے، ظاہر ہے کہ ایسا ہونے کا نہیں لہٰذا اس رونے والے کو بھی آگ مس نہیں کرےگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو کہ جس کی آنکھ سے مکھی یا اس کے سر کے برابر آنسو نکل آیا آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔ تو محترم قارئین! ان تمام احادیث مبارکہ کی روشنی سے ہمیں آخرت کی فکر کا سبق مل رہا ہے کہ رونا، گڑ گڑانا اور آنسو بہانا اور قیامت کی ہولناکیوں کو ملحوظ رکھنا اور موت اور قبر کی سختیوں کو یاد کرتے رہنا ہی زندگی کی کامیابی ہے اور یہ ہر گھڑی ہر لمحہ ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے باقی غفلت والوں کو کچھ مخصوص راتیں بھی دی گئی ہیں کہ ان راتوں میں ہی اپنے آپ کو جگاﺅ اور رحمت خدا وندی کا مستحق بنا و۔ اللہت عالیٰ جل جلالہ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ ہم سب کو آخرت کی فکر اور تیاری کی توفیق عطاءفرمائے۔ آمینhttp://dailynewspakistan.com/?p=35277
No comments:
Post a Comment